ہر سانس ہے اک نغمہ ہر نغمہ ہے مستانہ
کس درجہ دکھے دل کا رنگین ہے افسانہ
جو کچھ تھا نہ کہنے کا سب کہہ گیا دیوانہ
سمجھو تو مکمل ہے اب عشق کا افسانہ
دو زندگیوں کا ہے چھوٹا سا یہ افسانہ
لہرایا جہاں شعلہ اندھا ہوا پروانہ
ان رس بھری آنکھوں سے مستی جو ٹپکتی ہے
ہوتی ہے نظر ساقی دل بنتا ہے پیمانہ
ویرانے میں دیوانہ گھر چھوڑ کے آیا تھا
جب ہوگا نہ دیوانہ گھر ڈھونڈھے گا ویرانہ
افسانہ غم دل کا سننے کے نہیں قابل
کہہ دیتے ہیں سب ہنس کر دیوانہ ہے دیوانہ
جب عشق کے ماروں کا پرساں ہی نہیں کوئی
پھر دونوں برابر ہیں بستی ہو کہ ویرانہ
یہ آگ محبت کی پانی سے نہیں بجھتی
پھر شمع سے جا لپٹا جلتا ہوا پروانہ
غزل
ہر سانس ہے اک نغمہ ہر نغمہ ہے مستانہ
آرزو لکھنوی