EN हिंदी
ہر سانس ہے اک نغمہ ہر نغمہ ہے مستانہ | شیح شیری
har sans hai ek naghma har naghma hai mastana

غزل

ہر سانس ہے اک نغمہ ہر نغمہ ہے مستانہ

آرزو لکھنوی

;

ہر سانس ہے اک نغمہ ہر نغمہ ہے مستانہ
کس درجہ دکھے دل کا رنگین ہے افسانہ

جو کچھ تھا نہ کہنے کا سب کہہ گیا دیوانہ
سمجھو تو مکمل ہے اب عشق کا افسانہ

دو زندگیوں کا ہے چھوٹا سا یہ افسانہ
لہرایا جہاں شعلہ اندھا ہوا پروانہ

ان رس بھری آنکھوں سے مستی جو ٹپکتی ہے
ہوتی ہے نظر ساقی دل بنتا ہے پیمانہ

ویرانے میں دیوانہ گھر چھوڑ کے آیا تھا
جب ہوگا نہ دیوانہ گھر ڈھونڈھے گا ویرانہ

افسانہ غم دل کا سننے کے نہیں قابل
کہہ دیتے ہیں سب ہنس کر دیوانہ ہے دیوانہ

جب عشق کے ماروں کا پرساں ہی نہیں کوئی
پھر دونوں برابر ہیں بستی ہو کہ ویرانہ

یہ آگ محبت کی پانی سے نہیں بجھتی
پھر شمع سے جا لپٹا جلتا ہوا پروانہ