ہر روز راہ تکتی ہیں میرے سنگھار کی
گھر میں کھلی ہوئی ہیں جو کلیاں انار کی
کل ان کے بھی خیال کو میں نے جھٹک دیا
حد ہو گئی ہے میرے بھی صبر و قرار کی
ماضی پہ گفتگو سے وہ گھبرا رہے تھے آج
میں نے بھی آج بات وہی بار بار کی
اب پیار کی ادا پہ بھی جھنجھلا رہے ہیں وہ
کہتے ہیں مجھ کو فکر ہے کچھ کاروبار کی
اکثر تو لوگ پہلی صدا پر ہی بک گئے
بولی تو گو لگی تھی بڑے اعتبار کی
زندہ رہی تو نام بھی لوں گی نہ پیار کا
سوگند ہے مجھے مرے پروردگار کی
سب کا خیال گھر کی سجاوٹ کی محفلیں
میں نے بھی اب یہ عام روش اختیار کی
غزل
ہر روز راہ تکتی ہیں میرے سنگھار کی
شبنم شکیل