ہر روز ہی امروز کو فردا نہ کرو گے
وعدہ یہ کرو پھر کبھی وعدا نہ کرو گے
یہ مان لیا عہد وفا بھول چکے ہو
کیا بھول کے بھی تم ہمیں چاہا نہ کرو گے
محفل سے ہی اٹھ جائیں گے ہم ایسے قبا چاک
وحشت کا ہماری کبھی شکوا نہ کرو گے
اچھا تھا کہ جب عارضۂ ہجر نہیں تھا
اچھا ہے کہ اب تم کبھی اچھا نہ کرو گے
جس راز میں شامل ہے ہمارا بھی فسانہ
اس راز کو کیا ہم پہ بھی افشا نہ کرو گے
مر جائے گا دل حسرت انوار سحر میں
بے پردہ اگر تم رخ زیبا نہ کرو گے
کیا اور نہ تھا ترک تعلق کا بہانہ
سنتے ہیں کہ اب تم ہمیں رسوا نہ کرو گے
سمجھو تو ظہیرؔ ان کی نگاہوں کے اشارے
کیا آج بھی اظہار تمنا نہ کرو گے

غزل
ہر روز ہی امروز کو فردا نہ کرو گے
ظہیر کاشمیری