ہر قرض سفر چکا دیا ہے
دشت اور نگر ملا دیا ہے
جز عشق کسے ملی یہ توفیق
جو پایا اسے گنوا دیا ہے
پہلے ہی بہت تھا ہجر کا رنج
اب فاصلوں نے بڑھا دیا ہے
آبادیوں سے گئے ہوؤں کو
صحراؤں نے حوصلہ دیا ہے
دیوار بدست راہرو تھے
کس نے کسے راستہ دیا ہے
بچھڑا تو تسلی دی ہے اس نے
کس دھند میں آئنہ دیا ہے
میں بجھ تو گیا ہوں پھر بھی مجھ میں
روشن ترے نام کا دیا ہے
غزل
ہر قرض سفر چکا دیا ہے
جمال احسانی