ہر قدم سیل حوادث سے بچایا ہے مجھے
کبھی دل میں کبھی آنکھوں میں چھپایا ہے مجھے
اور سب لوگ تو مے خانہ سے گھر لوٹ گئے
مہرباں رات نے سینے سے لگایا ہے مجھے
ہر حسیں انجمن شب مجھے دہراتی ہے
جانے کس مطرب آشفتہ نے گایا ہے مجھے
سنگ سازوں نے تراشا ہے مرے پیکر کو
تم نے کیا سوچ کے پتھر پہ گرایا ہے مجھے
آنے والوں میں کوئی اپنا شناسا ہوتا
صورت فرش دل و دیدہ بچھایا ہے مجھے
کچی دیواروں کو پانی کی لہر کاٹ گئی
پہلی بارش ہی نے برسات کی ڈھایا ہے مجھے
میں جیا عشق کی اک زندہ علامت بن کر
داستاں گویوں نے راتوں کو سنایا ہے مجھے
غزل
ہر قدم سیل حوادث سے بچایا ہے مجھے
زبیر رضوی