EN हिंदी
ہر قدم پر شوق منزل کی فراوانی تو ہے | شیح شیری
har-qadam par shauq-e-manzil ki farawani to hai

غزل

ہر قدم پر شوق منزل کی فراوانی تو ہے

مانی جائسی

;

ہر قدم پر شوق منزل کی فراوانی تو ہے
راہ دشوار محبت میں یہ آسانی تو ہے

بے شک اس جینے سے مر جانے میں آسانی تو ہے
لیکن اے دل مرضیٔ قاتل کی قربانی تو ہے

سچ ہے شیون سے مرے ان کو پریشانی تو ہے
لیکن آخر درد عذر نالہ سامانی تو ہے

کامیابی ہو نہ ہو بیٹھا نہ رہ تدبیر کر
مدعا بس میں نہیں ہے سعیٔ امکانی تو ہے

آج یہ تسکین کافی ہے کہ کل روز جزا
روئداد زیست کہہ کر داد غم پانی تو ہے

ہاں یہاں یہ ہے کہ مقصود و تمنا ساتھ ہیں
ورنہ یہ جنت ہماری جانی پہچانی تو ہے

ایک ظرف دل ہے اس میں دو کی گنجائش کہاں
دور اے جمعیت خاطر پریشانی تو ہے

ہاں برے کو بھی نہ ایذا دے کہ اس کی ذات میں
خوئے انسانی نہیں ہے روح حیوانی تو ہے

رہنمائی عقل سے چاہی شروع عشق میں
عفو کر اے بے خودی یہ میری نادانی تو ہے

دیکھیے بازار محشر میں یہ کن داموں بکے
جنس غم کی خیر سے دنیا میں ارزانی تو ہے

اور نکلے گی کوئی تدبیر پیراہن دری
ہوں جو شل ہیں ہاتھ شوق چاک دامانی تو ہے

آئنہ میں اقتدار حسن کی صورت کہاں
آئنہ رکھ دے ادھر آ میری حیرانی تو ہے

ان کو کیا ٹوٹے کسی کا دل کہ رسوا ہو کوئی
خوش رہیں یوسف کہ ثابت پاک دامانی تو ہے

کس غرض سے پھر گوارا کیجیے تکلیف ضبط
راز رکھ کر بھی محبت کی سزا پانی تو ہے

اہل دل سے یہ جہاں خالی بھی رہتا ہے کہیں
عرفیؔ‌ و غالبؔ نہیں فانیؔ نہیں مانیؔ تو ہے