ہر قدم پر ہم سمجھتے تھے کہ منزل آ گئی
ہر قدم پر اک نئی درپیش مشکل آ گئی
یا خلا پر حکمراں یا خاک کے اندر نہاں
زندگی ڈٹ کر عناصر کے مقابل آ گئی
بڑھ رہا ہے دم بدم صبح حقیقت کا یقیں
ہر نفس پر یہ گماں ہوتا ہے منزل آ گئی
ٹوٹتے جاتے ہیں رشتے جوڑتا جاتا ہوں میں
ایک مشکل کم ہوئی اور ایک مشکل آ گئی
حال دل ہے کوئی خواب آور فسانہ تو نہیں
نیند ابھی سے تم کو اے یاران محفل آ گئی
غزل
ہر قدم پر ہم سمجھتے تھے کہ منزل آ گئی
حفیظ ہوشیارپوری