EN हिंदी
ہر قدم پاؤں میں ہیں انگارے | شیح شیری
har qadam panw mein hain angare

غزل

ہر قدم پاؤں میں ہیں انگارے

نبیل احمد نبیل

;

ہر قدم پاؤں میں ہیں انگارے
تیری رائے ہے کیا خدا بارے

دونوں کس بے بسی میں ملتے ہیں
آہوئے جاں غزال تاتارے

پاؤں ٹکتا نہیں زمیں پہ کہیں
سر پہ کیا گھومتے ہیں سیارے

آنکھ کی راہ سے نکل آئے
چاند راتوں کے سرد مہ پارے

یہ نہ سمجھو گنہ گار نہیں
کوئی پتھر اگر اٹھا مارے