ہر قدم مرحلۂ صبر و رضا ہو جیسے
زندگی معرکۂ کرب و بلا ہو جیسے
یوں گزر جاتے ہیں دنیا سے عدم کے راہی
رہ میں نقش قدم راہنما ہو جیسے
چپ ہوئے جاتے ہیں یوں دیکھ کے صورت میری
حال میرا مرے چہرے پہ لکھا ہو جیسے
اس طرح کاٹ رہا ہوں میں شب و روز حیات
ہر نفس اپنے لئے ایک سزا ہو جیسے
دشت میں جلتی ہیں تا حد نظر یوں شمعیں
سر ہر خار پہ خون شہدا ہو جیسے
رند جھجکے تو بلا نوشوں نے محسوس کیا
مے نہیں جام میں خون غربا ہو جیسے
یوں شفق رنگ سی ہے آج گلستاں کی زمیں
برہنہ پا کوئی کانٹوں پہ چلا ہو جیسے
ہر زباں پر مرے مٹنے کے ہیں چرچے لیکن
ان کے نزدیک تو کچھ بھی نہ ہوا ہو جیسے
آج اس انداز سے آئی مجھے ہچکی عاجزؔ
بھولنے والے نے پھر یاد کیا ہو جیسے
غزل
ہر قدم مرحلۂ صبر و رضا ہو جیسے
عاجز ماتوی