ہر قدم کہتا ہے تو آیا ہے جانے کے لیے
منزل ہستی نہیں ہے دل لگانے کے لیے
کیا مجھے خوش آئے یہ حیرت سرائے بے ثبات
ہوش اڑنے کے لیے ہے جان جانے کے لیے
دل نے دیکھا ہے بساط قوت ادراک کو
کیا بڑھے اس بزم میں آنکھیں اٹھانے کے لیے
خوب امیدیں بندھیں لیکن ہوئیں حرماں نصیب
بدلیاں اٹھیں مگر بجلی گرانے کے لیے
سانس کی ترکیب پر مٹی کو پیار آ ہی گیا
خود ہوئی قید اس کو سینے سے لگانے کے لیے
جب کہا میں نے بھلا دو غیر کو ہنس کر کہا
یاد پھر مجھ کو دلانا بھول جانے کے لیے
دیدہ بازی وہ کہاں آنکھیں رہا کرتی ہیں بند
جان ہی باقی نہیں اب دل لگانے کے لیے
مجھ کو خوش آئی ہے مستی شیخ جی کو فربہی
میں ہوں پینے کے لیے اور وہ ہیں کھانے کے لیے
اللہ اللہ کے سوا آخر رہا کچھ بھی نہ یاد
جو کیا تھا یاد سب تھا بھول جانے کے لیے
سر کہاں کے ساز کیسا کیسی بزم سامعین
جوش دل کافی ہے اکبرؔ تان اڑانے کے لیے
غزل
ہر قدم کہتا ہے تو آیا ہے جانے کے لیے
اکبر الہ آبادی