ہر قدم گر کے سنبھلنا ہوگا
جانے کتنا ابھی چلنا ہوگا
کسی پیکر میں اگر ڈھلتا ہے
موم کی طرح پگھلنا ہوگا
سامنے جب کوئی منزل ہی نہیں
راستہ روز بدلنا ہوگا
اپنی شہرت کے لیے خوشبو کو
صحن گلشن سے نکلنا ہوگا
عشق کی آگ میں تا عمر خلش
دل بے تاب کو چلنا ہوگا

غزل
ہر قدم گر کے سنبھلنا ہوگا
خلش دہلوی