EN हिंदी
ہر قدم گر کے سنبھلنا ہوگا | شیح شیری
har qadam gir ke sambhalna hoga

غزل

ہر قدم گر کے سنبھلنا ہوگا

خلش دہلوی

;

ہر قدم گر کے سنبھلنا ہوگا
جانے کتنا ابھی چلنا ہوگا

کسی پیکر میں اگر ڈھلتا ہے
موم کی طرح پگھلنا ہوگا

سامنے جب کوئی منزل ہی نہیں
راستہ روز بدلنا ہوگا

اپنی شہرت کے لیے خوشبو کو
صحن‌ گلشن سے نکلنا ہوگا

عشق کی آگ میں تا عمر خلش
دل بے تاب کو چلنا ہوگا