ہر پل میں تڑپ کر دم آخر ہوا جاتا ہوں
عاشق تھا میں پوشیدہ ظاہر ہوا جاتا ہوں
اس عمر جہالت میں دل خانۂ کعبہ تھا
اب علم و ہنر پا کر کافر ہوا جاتا ہوں
یہ کیسے بھلا کہہ دوں بخشا نہیں کچھ اس نے
ہر سانس پہ میں اس کا شاکر ہوا جاتا ہوں
اک بار کیا میں نے بس پیار اناڑی سا
ہاں پیار کو لکھ لکھ کر ماہر ہوا جاتا ہوں
غزل
ہر پل میں تڑپ کر دم آخر ہوا جاتا ہوں
سرور نیپالی