EN हिंदी
ہر نظر آشنا نہیں ہوتی | شیح شیری
har nazar aashna nahin hoti

غزل

ہر نظر آشنا نہیں ہوتی

شنکر لال شنکر

;

ہر نظر آشنا نہیں ہوتی
لطف میں کیا جفا نہیں ہوتی

وصل کی بھی دعا نہیں ہوتی
ہم سے اب التجا نہیں ہوتی

ساری دنیا کے کام آتے ہیں
ایک تم سے وفا نہیں ہوتی

دل میں اک آرزو ہے برسوں سے
لفظ بن کر ادا نہیں ہوتی

عشق تو ایک ہی سے ہوتا ہے
ساری دنیا خدا نہیں ہوتی

ٹھوکروں میں تری قیامت تھی
اب کبھی رونما نہیں ہوتی

یہ صفت ہے جناب شنکرؔ میں
ہر نظر پارسا نہیں ہوتی