ہر نظر آشنا نہیں ہوتی
لطف میں کیا جفا نہیں ہوتی
وصل کی بھی دعا نہیں ہوتی
ہم سے اب التجا نہیں ہوتی
ساری دنیا کے کام آتے ہیں
ایک تم سے وفا نہیں ہوتی
دل میں اک آرزو ہے برسوں سے
لفظ بن کر ادا نہیں ہوتی
عشق تو ایک ہی سے ہوتا ہے
ساری دنیا خدا نہیں ہوتی
ٹھوکروں میں تری قیامت تھی
اب کبھی رونما نہیں ہوتی
یہ صفت ہے جناب شنکرؔ میں
ہر نظر پارسا نہیں ہوتی

غزل
ہر نظر آشنا نہیں ہوتی
شنکر لال شنکر