ہر نقش ہے وجود فنا میرے سامنے
حیران ہوں یہ رنگ ہے کیا میرے سامنے
اک شکل سی ہے میری طرح میرے روبرو
اک حرف سا ہے میرے سوا میرے سامنے
گم سم کھڑی ہے میری صدا میرے آس پاس
دیوار بن گئی ہے ہوا میرے سامنے
کھلتا نہیں کہ آئینۂ کائنات میں
کیا ہے مثال عکس نوا میرے سامنے
جنگل کا وہ سفر بھی مبارک ہوا مجھے
جب چل رہا تھا میرا خدا میرے سامنے
اک اجنبی صدا سی تعاقب میں تھی مرے
دیکھا جو مڑ کے کچھ بھی نہ تھا مرے سامنے
اب سوچتا ہوں بکھرا ہوا دشت خاک میں
یہ کون مجھ کو توڑ گیا میرے سامنے
قیصرؔ ہوا تھا سامنا اک شکل سے مرا
پھر اس کے بعد کچھ نہ رہا میرے سامنے
غزل
ہر نقش ہے وجود فنا میرے سامنے
نذیر قیصر