EN हिंदी
ہر نئی شام یہ احساس ہوا ہو گویا | شیح شیری
har nai sham ye ehsas hua ho goya

غزل

ہر نئی شام یہ احساس ہوا ہو گویا

نقاش کاظمی

;

ہر نئی شام یہ احساس ہوا ہو گویا
میرا سایہ مرے پیکر سے بڑا ہو گویا

تیرے لہجے میں تو تھی ہی تری تلوار کی کاٹ
تیری یادوں میں بھی اب زہر ملا ہو گویا

پچھلے موسم میں سبھی گریہ کناں تھے مگر اب
چشم خوں رنگ میں سیلاب رکا ہو گویا

چاند نکلا تو مری ذات کو اندازہ ہوا
اس نے چپکے سے مرا نام لیا ہو گویا

چن لیا میں نے تو پھر اپنی محبت کا خدا
اس کو اب بھی ہے گماں میرا خدا ہو گویا

ایک مدت سے خلاؤں میں تھیں آنکھیں روشن
اب یہ عالم ہے کہ آنکھوں میں خلا ہو گویا

پھول کھلنے کو تو نقاش کھلے خواب مگر
میرے زخموں کے چٹخنے کی صدا ہو گویا