ہر نئے سال نیا پیڑ لگا دیتا ہوں
اور بے خانماں چڑیوں کو بتا دیتا ہوں
روز سنتا ہوں میں برگد سے پرانے قصے
اور اسے اپنی کہانی بھی سنا دیتا ہوں
روز اک دور کی آواز ٹھہرتی ہے یہاں
اور میں آواز میں آواز ملا دیتا ہوں
مانگنے قرض نکل جاتا ہوں ہم سایوں سے
اور بستر پہ سوالی کو لٹا دیتا ہوں
دل کو پوری طرح ہونے نہیں دیتا برباد
دکھ کے پھیلاؤ کو میں خود ہی گھٹا دیتا ہوں
چاہتا ہوں تری تصویر بنانا لیکن
میں کسی اور کی تصویر بنا دیتا ہوں
جب نظر آتا ہے اپنے سوا رہ گیر کوئی
اک دیا اور سر راہ جلا دیتا ہوں
غزل
ہر نئے سال نیا پیڑ لگا دیتا ہوں
محسن اسرار