ہر نئے موڑ دھوپ کا صحرا
کارواں ساز رہ گئے تنہا
سایۂ شاخ گل سے نامانوس
وہ کوئی پالتو کبوتر تھا
وہ کوئی ریشمی لباس میں تھی
میں کوئی پھول تھا جو مرجھایا
چاندنی چار دن بہت سوئی
پانچویں دن خمار ٹوٹ گیا
مچھلیاں خود فریب ہوتی ہیں
اک مچھیرے نہ تبصرہ لکھا
واپسی اب گھروں میں نا ممکن
دور تک بے گمان سناٹا
آسماں سوچ کر اڑان بھری
چار سمتوں سے اک خلا ابھرا
کشتیاں ساحلوں پہ ڈوب چلیں
وہ کھلے پانیوں میں کود پڑا
روشنی کے حلیف بھگتیں گے
تیرگی کی جبین پر لکھا

غزل
ہر نئے موڑ دھوپ کا صحرا
فاروق مضطر