ہر نئے چہرے سے پیدا اک نیا چہرا ہوا
طاق نسیاں پر ہے کوئی آئنہ رکھا ہوا
بے وسیلہ اس جہاں میں موت بھی ممکن نہیں
حیلۂ دار و رسن بھی ہے مرا سمجھا ہوا
زخم گہرے کر رہی ہے ہر نئے مصرعے کی کاٹ
شعر کہنے سے بھی دل کا بوجھ کب ہلکا ہوا
زندگی کیا جانے کیوں محسوس ہوتا ہے مجھے
تجھ سے پہلے بھی ہو جیسے زہر یہ چکھا ہوا
ہوک سی اٹھتی ہے صہباؔ آسماں کو دیکھ کر
گر میں شعلہ ہوں تو پھر کیوں خاک سے پیدا ہوا

غزل
ہر نئے چہرے سے پیدا اک نیا چہرا ہوا
صہبا اختر