EN हिंदी
ہر مسرت سے کنارا کر لیا | شیح شیری
har masarrat se kinara kar liya

غزل

ہر مسرت سے کنارا کر لیا

عبد الملک سوز

;

ہر مسرت سے کنارا کر لیا
ہم نے تیرا غم گوارا کر لیا

چھٹ گئی کچھ شام غم کی تیرگی
اشک جو ابھرا ستارا کر لیا

آنکھ کھلتی ہی نہیں ہے جس طرح
ان کا سوتے میں نظارا کر لیا

لطف فرمایا نگاہ ناز نے
اپنے بس میں دل ہمارا کر لیا

اے مرے غم خوار تیرا شکریہ
میں نے اپنے غم کا چارا کر لیا

شب کی تنہائی سے پھر گھبرا گئے
پھر یقین ہم نے تمہارا کر لیا

سر پہ طوفاں نے اٹھایا ہے اسے
جس نے ساحل سے کنارا کر لیا

دشمنی میں جھک گئی اس کی کمر
آسمان نے کیا ہمارا کر لیا

بن سہارے ڈوبنا مشکل تھا سوزؔ
ناخداؤں کو سہارا کر لیا