ہر منظر خوش رنگ سلگ جائے تو کیا ہو
شبنم بھی اگر آگ ہی برسائے تو کیا ہو
احساس کی قندیل سے اذہان ہیں روشن
لیکن یہ اجالا بھی جو کجلائے تو کیا ہو
سورج کی تمازت سے جھلس جاتی ہے دنیا
سورج مرے قدموں پہ اتر آئے تو کیا ہو
زر تابیٔ افکار تو پہلے ہی سے ہے ماند
الفاظ کا آئینہ بھی دھندلائے تو کیا ہو
میں جب بھی لکھوں وقت کے خوں ریز فسانے
ہاتھوں میں قلم چھوٹ کے رہ جائے تو کیا ہو
بے خواب نگاہوں کے افق پر جو اچانک
دھندلا سا کوئی چاند ابھر آئے تو کیا ہو
غزل
ہر منظر خوش رنگ سلگ جائے تو کیا ہو
انور مینائی