EN हिंदी
ہر لمحے میں صدیوں کا افسانہ ہوتا ہے | شیح شیری
har lamhe main sadiyon ka afsana hota hai

غزل

ہر لمحے میں صدیوں کا افسانہ ہوتا ہے

سرفراز خالد

;

ہر لمحے میں صدیوں کا افسانہ ہوتا ہے
گردش میں جب سانسوں کا پیمانہ ہوتا ہے

ہم کو تو بس آتا ہے سانسوں کا کاروبار
کیا کھونا ہوتا ہے اور کیا پانا ہوتا ہے

دل کی ضد پر اس سے ملنا پڑتا ہے ہر روز
اور پھر ساری دنیا کو سمجھانا پڑتا ہے

آنکھیں بھر آتی ہیں میری ہنس لینے کے بعد
شہر سے آگے اکثر ویرانہ پڑتا ہے

گھر میں خواہش ہوتی ہے صحراؤں کو جائیں
پھر کچھ سوچ کے رستے میں رک جانا ہوتا ہے

روز کوئی پہنا دیتا ہے خوابوں کی پازیب
اور پھر ناچ کے دنیا کو دکھلانا ہوتا ہے

کھو دینا ہوتا ہے خود کو دن ہونے کے ساتھ
شام ڈھلے تک پھر سے خود کو پانا ہوتا ہے

پہلے ثابت ہوتا ہے اس سے ملنے کا جرم
اور پھر مجھ پہ یادوں کا جرمانہ ہوتا ہے