ہر لمحہ مرگ و زیست میں پیکار دیکھنا
کھینچی ہوئی ہے وقت نے تلوار دیکھنا
اس دوپہر کی دھوپ میں سایہ کہاں ملے
دن ڈھل چلے تو پھر کہیں دیوار دیکھنا
اب تو سفر کے سخت مراحل ہیں اور ہم
جب پاس آئے منزل دلدار دیکھنا
بے تابیاں ہوں لاکھ مگر اس کے روبرو
چھوڑیں نہ ہاتھ دامن پندار دیکھنا
اے مصلحت کی پست زمینوں کے باسیو
کتنی بلندیاں ہیں سر دار دیکھنا
ذرہ بھی آفتاب سے کمتر نہیں یہاں
یارو مگر بہ دیدۂ بیدار دیکھنا
جاویدؔ ہم ہیں اور ہے احساس کا خلوص
یاروں کے پاس جھوٹ کے طومار دیکھنا
غزل
ہر لمحہ مرگ و زیست میں پیکار دیکھنا
عبد اللہ جاوید