EN हिंदी
ہر لمحہ اگر گریز پا ہے | شیح شیری
har lamha agar gurez-pa hai

غزل

ہر لمحہ اگر گریز پا ہے

احمد ندیم قاسمی

;

ہر لمحہ اگر گریز پا ہے
تو کیوں مرے دل میں بس گیا ہے

چلمن میں گلاب سنبھل رہا ہے
یہ تو ہے کہ شوخی صبا ہے

جھکتی نظریں بتا رہی ہیں
میرے لیے تو بھی سوچتا ہے

میں تیرے کہے سے چپ ہوں لیکن
چپ بھی تو بیان مدعا ہے

ہر دیس کی اپنی اپنی بولی
صحرا کا سکوت بھی صدا ہے

اک عمر کے بعد مسکرا کر
تو نے تو مجھے رلا دیا ہے

اس وقت کا حساب کیا دوں
جو تیرے بغیر کٹ گیا ہے

ماضی کی سناؤں کیا کہانی
لمحہ لمحہ گزر گیا ہے

مت مانگ دعائیں جب محبت
تیرا میرا معاملہ ہے

اب تجھ سے جو ربط ہے تو اتنا
تیرا ہی خدا مرا خدا ہے

رونے کو اب اشک بھی نہیں ہیں
یا عشق کو صبر آ گیا ہے

اب کس کی تلاش میں ہیں جھونکے
میں نے تو دیا بجھا دیا ہے

کچھ کھیل نہیں ہے عشق کرنا
یہ زندگی بھر کا رت جگا ہے