ہر لحظہ کمیں دل میں تری یاد رہے گی
بستی یہ اجڑنے پہ بھی آباد رہے گی
ہے ہستیٔ عاشق کا بس اتنا ہی فسانہ
برباد تھی برباد ہے برباد رہے گی
ہے عشق وہ نعمت جو خریدی نہیں جاتی
یہ شے ہے خدا داد خدا داد رہے گی
صیاد کو معلوم نہ تھا راز یہ شاید
یہ روح قفس میں بھی تو آزاد رہے گی
وہ آئے بھی تو ضبط سے لب ہل نہ سکیں گے
فریاد مری تشنۂ فریاد رہے گی
یہ حسن ستم کوش ستم کوش ہے کب تک
کب تک یہ نظر بانیٔ بیداد رہے گی
وہ زلف پریشاں کا سنوارے نہ سنورنا
وہ ان کے بگڑنے کی ادا یاد رہے گی
غزل
ہر لحظہ کمیں دل میں تری یاد رہے گی
کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر