ہر کوئی شہر میں پابند انا لگتا ہے
کیا تماشا ہے کہ ہر شخص خدا لگتا ہے
میں نے ہجرت کے بیاباں میں ریاضت کی ہے
اب یہ جنگل مجھے فردوس نما لگتا ہے
دیدۂ شوخ میں دیکھا ہے اتر کر میں نے
حسن پندار ہے پردے میں بھلا لگتا ہے
جب ترے غم سے نکلنے کی نہ صورت نکلے
تیرا وحشی کسی دیوار سے جا لگتا ہے
اس کو سرکار کے بوسے کا شرف حاصل ہے
ورنہ کالا سا یہ پتھر مرا کیا لگتا ہے
اب بھی جاتا ہوں کٹے پیڑ کا سایہ لینے
مدتوں سے جو بھلا تھا سو بھلا لگتا ہے
غزل
ہر کوئی شہر میں پابند انا لگتا ہے
نادر صدیقی