EN हिंदी
ہر کسی کو کب بھلا یوں مسترد کرتا ہوں میں | شیح شیری
har kasi ko kab bhala yun mustarad karta hun main

غزل

ہر کسی کو کب بھلا یوں مسترد کرتا ہوں میں

اقبال ساجد

;

ہر کسی کو کب بھلا یوں مسترد کرتا ہوں میں
تو ہے خوش قسمت اگر تجھ سے حسد کرتا ہوں میں

بغض بھی سینے میں رکھتا ہوں امانت کی طرح
نفرتیں کرنے پہ آ جاؤں تو حد کرتا ہوں میں

کوئی اپنے آپ کو منوانے والا بھی تو ہو
ماننے میں کب کسی کے رد و کد کرتا ہوں میں

کچھ شعوری سطح پر کچھ لا شعوری طور پر
کار فکر و فن میں اب سب کی مدد کرتا ہوں میں

اس لیے مجھ سے خفا ہیں اہل گلشن آج کل
رنگ جھٹلاتا ہوں خوشبو مسترد کرتا ہوں میں

میرے جذبوں سے بچاؤ نیک دل لوگو مجھے
روز او شب ان بد معاشوں کی مدد کرتا ہوں میں

دوسروں کے واسطے لکھا ہوا لگتا ہے جھوٹ
اپنی سچائی کو اکثر آپ رد کرتا ہوں میں

رنگ پر آئی ہوئی ہے اب جنوں خیزی میری
روز و شب توہین ارباب خرد کرتا ہوں میں

طوق گردن میں پہنتا ہوں لہو کی دھار کا
خلق کو حیران ساجدؔ زد بہ زد کرتا ہوں میں