ہر ارادہ مضمحل ہر فیصلہ کمزور تھا
دور رہ کر تم سے اپنا حال ہی کچھ اور تھا
اپنے ہی اندر کہیں سمٹا ہوا بیٹھا تھا میں
گھر کے باہر جب گرجتے بادلوں کا شور تھا
اک اشارے پر کسی کے جس نے کاٹے تھے پہاڑ
سوچتا ہوں بازوؤں میں اس کے کتنا زور تھا؟
کر لیا ہے اس نے کیوں تاریک شب کا انتخاب؟
منتظر اس کے لیے تو اک سنہرا دور تھا!
میں نے کتنی بار پوچھا تیرے گھر کا راستہ
زندگی کا مسئلہ جس وقت زیر غور تھا
غزل
ہر ارادہ مضمحل ہر فیصلہ کمزور تھا
شاہد میر