ہر اک یہ کہتا ہے اب کار دیں تو کچھ بھی نہیں
یہ سچ بھی ہے کہ مزا بے یقیں تو کچھ بھی نہیں
تمام عمر یہاں خاک اڑا کے دیکھ لیا
اب آسمان کو دیکھوں زمیں تو کچھ بھی نہیں
مری نظر میں تو بس ہے انہیں سے رونق بزم
وہی نہیں ہیں جو اے ہم نشیں تو کچھ بھی نہیں
حرم میں مجھ کو نظر آئے صرف زاہد خشک
مکان خوب ہے لیکن مکیں تو کچھ بھی نہیں
ترے لبوں سے ہے البتہ اک حلاوت زیست
نبات قند شکر انگبیں تو کچھ بھی نہیں
دماغ اب تو مسوں کا ہے چرخ چارم پر
بڑھا دیا مری خواہش نے تھیں تو کچھ بھی نہیں
بہ قول حضرت محشرؔ کلام شاعر کا
پسند آئے تو سب کچھ نہیں تو کچھ بھی نہیں
وہ کہتے ہیں کہ تمہیں ہو جو کچھ ہو اے اکبرؔ
ہم اپنے دل میں ہیں کہتے ہمیں تو کچھ بھی نہیں
غزل
ہر اک یہ کہتا ہے اب کار دیں تو کچھ بھی نہیں
اکبر الہ آبادی