ہر اک شے اشتہاری ہو گئی ہے
یہ دنیا کاروباری ہو گئی ہے
مرے دل میں جو تھی وہ بات اب تو
مرے ہونٹوں پہ جاری ہو گئی ہے
ستم جھیلے ہیں اتنے آگہی کے
عجب حالت ہماری ہو گئی ہے
تری یادوں کے صدقے وجہ راحت
شب اختر شماری ہو گئی ہے
کئی دن سے یہ کیسی بے خودی سی
دل مضطر پہ طاری ہو گئی ہے
یہ ممکن ہی نہیں تنہا رہوں میں
غم جاناں سے یاری ہو گئی ہے
یہ تیری آرزو تیری تمنا
بھلا کیوں وجہ خواری ہو گئی ہے

غزل
ہر اک شے اشتہاری ہو گئی ہے
ظفر انصاری ظفر