EN हिंदी
ہر اک شے اشتہاری ہو گئی ہے | شیح شیری
har ek shai ishtihaari ho gai hai

غزل

ہر اک شے اشتہاری ہو گئی ہے

ظفر انصاری ظفر

;

ہر اک شے اشتہاری ہو گئی ہے
یہ دنیا کاروباری ہو گئی ہے

مرے دل میں جو تھی وہ بات اب تو
مرے ہونٹوں پہ جاری ہو گئی ہے

ستم جھیلے ہیں اتنے آگہی کے
عجب حالت ہماری ہو گئی ہے

تری یادوں کے صدقے وجہ راحت
شب اختر شماری ہو گئی ہے

کئی دن سے یہ کیسی بے خودی سی
دل مضطر پہ طاری ہو گئی ہے

یہ ممکن ہی نہیں تنہا رہوں میں
غم جاناں سے یاری ہو گئی ہے

یہ تیری آرزو تیری تمنا
بھلا کیوں وجہ خواری ہو گئی ہے