ہر اک صلیب و دار کا نظارہ ہم ہوئے
ہر ایک کے گناہ کا کفارہ ہم ہوئے
آئی جو بھوری شام سلگنے لگا بدن
بھیگی جو کالی رات تو انگارا ہم ہوئے
مٹی میں مل گئے تو کھلائے گناہ گل
ابلے تو اپنے خون کا فوارہ ہم ہوئے
سمجھا تھا وہ کہ خاک میں ہم کو ملا دیا
پیدا اسی زمین سے دوبارہ ہم ہوئے
ہر ایک چوب دار نے کھینچی ہماری کھال
ہر دور کے جلوس کا نقارا ہم ہوئے
جن اجنبی خلاؤں سے واقف نہیں کوئی
مضطرؔ انہیں خلاؤں کا سیارہ ہم ہوئے
غزل
ہر اک صلیب و دار کا نظارہ ہم ہوئے
مضطر حیدری