ہر اک رستہ اندھیروں میں گھرا ہے
محبت اک ضروری حادثہ ہے
گرجتی آندھیاں ضائع ہوئی ہیں
زمیں پہ ٹوٹ کے آنسو گرا ہے
نکل آئے کدھر منزل کی دھن میں
یہاں تو راستہ ہی راستہ ہے
دعا کے ہاتھ پتھر ہو گئے ہیں
خدا ہر ذہن میں ٹوٹا پڑا ہے
تمہارا تجربہ شاید الگ ہو
مجھے تو علم نے بھٹکا دیا ہے
غزل
ہر اک رستہ اندھیروں میں گھرا ہے
ندا فاضلی