EN हिंदी
ہر اک رستہ اندھیروں میں گھرا ہے | شیح شیری
har ek rasta andheron mein ghira hai

غزل

ہر اک رستہ اندھیروں میں گھرا ہے

ندا فاضلی

;

ہر اک رستہ اندھیروں میں گھرا ہے
محبت اک ضروری حادثہ ہے

گرجتی آندھیاں ضائع ہوئی ہیں
زمیں پہ ٹوٹ کے آنسو گرا ہے

نکل آئے کدھر منزل کی دھن میں
یہاں تو راستہ ہی راستہ ہے

دعا کے ہاتھ پتھر ہو گئے ہیں
خدا ہر ذہن میں ٹوٹا پڑا ہے

تمہارا تجربہ شاید الگ ہو
مجھے تو علم نے بھٹکا دیا ہے