EN हिंदी
ہر اک رنج و غم سے سبک دوش ہو جا | شیح شیری
har ek ranj-o-gham se subuk-dosh ho ja

غزل

ہر اک رنج و غم سے سبک دوش ہو جا

عقیل نعمانی

;

ہر اک رنج و غم سے سبک دوش ہو جا
اسے یاد کر اور مدہوش ہو جا

نظر اس کی چاہے تو نظریں جھکا لے
ہے کچھ عرض کرنا تو خاموش ہو جا

سکوں کے لئے بے سکوں دل کو مت کر
پریشانیوں سے ہم آغوش ہو جا

نکل پارسائی کے خطروں سے باہر
تو مے نوش ہے تو بلانوش ہو جا

ہے تشہیر کا سب سے اچھا یہ نسخہ
اچانک کسی روز روپوش ہو جا