ہر اک قدم پہ زخم نئے کھائے کس طرح
رندوں کی انجمن میں کوئی جائے کس طرح
صحرا کی وسعتوں میں رہا عمر بھر جو گم
صحرا کی وحشتوں سے وہ گھبرائے کس طرح
جس نے بھی تجھ کو چاہا دیا اس کو تو نے غم
دنیا ترے فریب کوئی کھائے کس طرح
زنداں پہ تیرگی کے ہیں پہرے لگے ہوئے
پر ہول خواب گاہ میں نیند آئے کس طرح
زنجیر پا کٹی تو جوانی گزر گئی
ہونٹوں پہ تیرا نام صباؔ لائے کس طرح
غزل
ہر اک قدم پہ زخم نئے کھائے کس طرح
سبط علی صبا