EN हिंदी
ہر اک منزل قیام رہ گزر معلوم ہوتی ہے | شیح شیری
har ek manzil qayam-e-rahguzar malum hoti hai

غزل

ہر اک منزل قیام رہ گزر معلوم ہوتی ہے

قمر بدرپوری

;

ہر اک منزل قیام رہ گزر معلوم ہوتی ہے
ہمیں تو زندگی پیہم سفر معلوم ہوتی ہے

وہی تنہائی کا عالم وہی بے رونقی ہر سو
بیاباں تیری خاموشی بھی گھر معلوم ہوتی ہے

ہمارے حاسدوں کی چال آخر رنگ لے آئی
بہت بدلی ہوئی ان کی نظر معلوم ہوتی ہے

مسیحا بھول جا تیری دوا کچھ کام آئے گی
کہ ہر تدبیر اب تو بے اثر معلوم ہوتی ہے

اگر دو وقت کی روٹی ہی مل جائے غنیمت ہے
میاں فاقے میں گٹھلی بھی ثمر معلوم ہوتی ہے

اندھیری رات میں اے جان جاں بھٹکے مسافر کو
دئے کی لو بھی جیسے اک قمر معلوم ہوتی ہے