EN हिंदी
ہر اک جھونکا نکیلا ہو گیا ہے | شیح شیری
har ek jhonka nukila ho gaya hai

غزل

ہر اک جھونکا نکیلا ہو گیا ہے

محمد علوی

;

ہر اک جھونکا نکیلا ہو گیا ہے
فضا کا رنگ نیلا ہو گیا ہے

ابھی دو چار ہی بوندیں گریں ہیں
مگر موسم نشیلا ہو گیا ہے

کریں کیا دل اسی کو مانگتا ہے
یہ سالا بھی ہٹیلا ہو گیا ہے

خبر کیا تھی کہ نیکی بانجھ ہوگی
بدی کا تو قبیلہ ہو گیا ہے

خدا رکھے جوانی آ گئی ہے
گنہ بانکا سجیلا ہو گیا ہے

نہ جانے چھت پہ کیا دیکھا تھا علویؔ
بچارا چاند پیلا ہو ہے