ہر اک جواب کی تہ میں سوال آئے گا
گئے یگوں کے بتوں کا زوال آئے گا
ہنر کا عکس بھی ہو آئنہ بھی بن جاؤ
پھر اس کے بعد ہی رنگ کمال آئے گا
حریف جاں ہے اگر وہ تو پھر کہو اس سے
گئی جو جان تو دل کا سوال آئے گا
یقین ہے کہ ملے گا عروج ہم کو بھی
یقین ہے کہ ترا بھی زوال آئے گا
ابھی امید کو مایوسیوں کا رنگ نہ دے
ٹھہر ٹھہر ابھی اس کا خیال آئے گا
اسی کے شہہ پہ بجھے گا چراغ دل عادلؔ
نہاں خلوص میں جو اشتعال آئے گا

غزل
ہر اک جواب کی تہ میں سوال آئے گا
عادل حیات