ہر اک جنت کے رستے ہو کے دوزخ سے نکلتے ہیں
انہیں کا حق ہے پھولوں پر جو انگاروں پہ چلتے ہیں
حقائق ان سے ٹکرا کر نئے سانچوں میں ڈھلتے ہیں
بڑے ہی سخت جاں ہوتے ہیں جو خوابوں پہ پلتے ہیں
گماں ہوتا ہے جن موجوں پہ اک نقش حبابی کا
انہی سوئی ہوئی موجوں میں کچھ طوفان پلتے ہیں
وہ رات آخر ہوئی تو کیا یہ دن کب رہنے والا ہے
ستارے ماند ہوتے ہیں اگر سورج بھی ڈھلتے ہیں
تلون چشم ساقی میں تغیر وضع رندی میں
ہمارے میکدے میں روز پیمانے بدلتے ہیں
حقائق سرد ہو سکتے ہیں سب محراب و منبر کے
مگر وہ خواب جو رندوں کے پیمانے میں ڈھلتے ہیں
جنوں نے عالم وحشت میں جو راہیں نکالی ہیں
خرد کے کارواں آخر انہی راہوں پہ چلتے ہیں
سرورؔ سادہ کو یوں تو لہو رونا ہی آتا ہے
مگر اس سادگی میں بھی بڑے پہلو نکلتے ہیں
غزل
ہر اک جنت کے رستے ہو کے دوزخ سے نکلتے ہیں
آل احمد سرور