EN हिंदी
ہر اک فن میں یقیناً طاق ہے وہ | شیح شیری
har ek fan mein yaqinan taq hai wo

غزل

ہر اک فن میں یقیناً طاق ہے وہ

راہی فدائی

;

ہر اک فن میں یقیناً طاق ہے وہ
ازل ہی سے بڑا خلاق ہے وہ

جسے تم نے کہا تھا سم قاتل
عزیزم اصل میں تریاق ہے وہ

اسے سنگ تنفر سے نہ رگڑو
سلگ اٹھے گا دل چقماق ہے وہ

غروب صدق کا خدشہ ہے باطل
کہاں منت کش اشراق ہے وہ

جری ابن شرافت نیک لڑکا
قبیلے بھر میں لیکن عاق ہے وہ

بباطن آئنہ ہے قلب اس کا
بظاہر سرور فساق ہے وہ

کہاں سے احتساب نفس ہوگا
حساب دوستاں بے باق ہے وہ

مقفل گھر کھلا ہے اک دریچہ
کسی کی دید کا مشتاق ہے وہ

جہاں رکھی ہے شمع بے ثباتی
مری دیوار جاں کا طاق ہے وہ

عزائم جس سے پسپا ہوں سفر میں
امیر اس کو کہیں قزاق ہے وہ

ہوس بھی کیا کوئی خستہ ستوں ہے
درخت نارسا کی ساق ہے وہ

بنایا اس نے سب کو جفت راہیؔ
مگر ہر زاویہ سے طاق ہے وہ