EN हिंदी
ہر ہر سانس نئی خوشبو کی اک آہٹ سی پاتا ہے | شیح شیری
har har sans nai KHushbu ki ek aahaT si pata hai

غزل

ہر ہر سانس نئی خوشبو کی اک آہٹ سی پاتا ہے

خلیلؔ الرحمن اعظمی

;

ہر ہر سانس نئی خوشبو کی اک آہٹ سی پاتا ہے
اک اک لمحہ اپنے ہاتھ سے جیسے نکلا جاتا ہے

دن ڈھلنے پر نس نس میں جب گرد سی جمنے لگتی ہے
کوئی آ کر میرے لہو میں پھر مجھ کو نہلاتا ہے

ہم سب ایک ہی ماں کے بیٹے اس دھرتی کے باسی ہیں
جو بھی اس مٹی سے بنا ہے اس سے اپنا ناتا ہے

ساری ساری رات جلے ہیں جس اپنی تنہائی میں
ان کی آگ سے صبح کا سورج اپنا دیا جلاتا ہے

میں تو گھر میں اپنے آپ سے باتیں کرنے بیٹھا تھا
ان دیکھا سا اک چہرہ دیوار پہ ابھرا آتا ہے

کتنے سوال ہیں اب بھی ایسے جن کا کوئی جواب نہیں
پوچھنے والا پوچھ کے ان کو اپنا دل بہلاتا ہے

کس کو سزائے موت ملے گی یہ کیسی ہے بھیڑ لگی
اور کیا اس نے جرم کیا تھا کوئی نہیں بتاتا ہے