ہر ہر سانس نئی خوشبو کی اک آہٹ سی پاتا ہے
اک اک لمحہ اپنے ہاتھ سے جیسے نکلا جاتا ہے
دن ڈھلنے پر نس نس میں جب گرد سی جمنے لگتی ہے
کوئی آ کر میرے لہو میں پھر مجھ کو نہلاتا ہے
ساری ساری رات جلے ہیں جو اپنی تنہائی میں
ان کی آگ سے صبح کا سورج اپنا دیا جلاتا ہے
میں تو گھر میں اپنے آپ سے باتیں کرنے بیٹھا تھا
ان دیکھا سا اک چہرہ دیوار پہ ابھرا آتا ہے
کتنے سوال ہیں اب بھی ایسے جن کا کوئی جواب نہیں
پوچھنے والا پوچھ کے ان کو اپنا دل بہلاتا ہے
کس کو سزائے موت ملے گی یہ کیسی ہے بھیڑ لگی
اور کیا اس نے جرم کیا تھا کوئی نہیں بتلاتا ہے
غزل
ہر ہر سانس نئی خوشبو کی اک آہٹ سی پاتا ہے
خلیلؔ الرحمن اعظمی