ہر حال میں رہا جو ترا آسرا مجھے
مایوس کر سکا نہ ہجوم بلا مجھے
ہر نغمے نے انہیں کی طلب کا دیا پیام
ہر ساز نے انہیں کی سنائی صدا مجھے
ہر بات میں انہیں کی خوشی کا رہا خیال
ہر کام سے غرض ہے انہیں کی رضا مجھے
رہتا ہوں غرق ان کے تصور میں روز و شب
مستی کا پڑ گیا ہے کچھ ایسا مزا مجھے
رکھیے نہ مجھ پہ ترک محبت کی تہمتیں
جس کا خیال تک بھی نہیں ہے روا مجھے
کافی ہے ان کے پائے حنابستہ کا خیال
ہاتھ آئی خوب سوز جگر کی دوا مجھے
کیا کہتے ہو کہ اور لگا لو کسی سے دل
تم سا نظر بھی آئے کوئی دوسرا مجھے
بیگانۂ ادب کیے دیتی ہے کیا کروں
اس محو ناز کی نگۂ آشنا مجھے
اس بے نشاں کے ملنے کی حسرتؔ ہوئی امید
آب بقا سے بڑھ کے ہے زہر فنا مجھے
غزل
ہر حال میں رہا جو ترا آسرا مجھے
حسرتؔ موہانی