ہر گھڑی پیش نظر عشق میں کیا کیا نہ رہا
میرا دل بس تری تصویر کا دیوانہ رہا
یہ ستم مجھ پہ مرے عشق کا اچھا نہ رہا
تجھ کو دیکھا تو مرا دل مرا اپنا نہ رہا
ایسا مدہوش کیا تیری تجلی نے مجھے
طور بھی میرے لئے وجہ تماشہ نہ رہا
یوں ترے نقش کف پا پہ ادا کی ہے نماز
سر میں کعبہ کے لئے ایک بھی سجدہ نہ رہا
زندگانی تجھے لے جاؤں میں کس کے در پر
دل میں حسرت نہ رہی سر میں بھی سودا نہ رہا
وہ نہ کعبے میں ملا ہے نہ صنم خانے میں
کیا قیامت ہے کہ وہ شوخ کسی کا نہ رہا
ابتدا یہ تھی کہ میں اپنا سمجھتا تھا انہیں
انتہا یہ ہے کہ میں آپ بھی اپنا نہ رہا
وہ پرایا تھا فناؔ اس کا گلا کیا کیجے
غم تو یہ ہے کہ میں خود آپ بھی اپنا نہ رہا
غزل
ہر گھڑی پیش نظر عشق میں کیا کیا نہ رہا
فنا بلند شہری