ہر گھڑی کرب مسلسل میں کٹی جاتی ہے
زندگی اپنے گناہوں کی سزا پاتی ہے
یاد آؤں کہ نہ آؤں مری قسمت لیکن
ان سے امید ملاقات چلی جاتی ہے
یوں مرے بعد ہے دنیا پہ اداسی طاری
جیسے دنیا مرے حالات کا غم کھاتی ہے
جب بھی آتا ہے تصور ترے انسانوں کا
ایک فریاد مرے منہ سے نکل جاتی ہے
خوش رہو دشت تمنا کی ہواؤ کہ مجھے
تم سے بچھڑے ہوئے یاروں کی مہک آتی ہے
زندگی میں کئی ایسے بھی ملے تھے ساتھی
روح اب جن کے تصور سے بھی گھبراتی ہے
غور کرتا ہوں جو شفقتؔ کبھی تنہائی میں
اپنے حالات پہ تا دیر ہنسی آتی ہے
غزل
ہر گھڑی کرب مسلسل میں کٹی جاتی ہے
شفقت کاظمی