ہر غزل ہر شعر اپنا استعارہ آشنا
فصل گل میں جیسے شاخ گل شرارا آشنا
خون تھوکا دل جلایا نقد جاں قربان کی
شہر فن میں میں رہا کتنا خسارا آشنا
کہہ گیا اپنی نظر سے ان کہے قصے بھی وہ
بزم حرف و صوت میں جو تھا اشارا آشنا
اپنے ٹوٹے شہپروں کے نوحہ گر تو تھے بہت
دشت فن میں تھا نہ کوئی سنگ خارا آشنا
عمر بھر بپھری ہوئی موجوں سے جو لڑتا رہا
وہ سمندر تو ازل سے تھا کنارا آشنا
غزل
ہر غزل ہر شعر اپنا استعارہ آشنا
ظہیرؔ غازی پوری