EN हिंदी
ہر غم کو یوں تو ضبط کئے جا رہا ہوں میں | شیح شیری
har gham ko yun to zabt kiye ja raha hun main

غزل

ہر غم کو یوں تو ضبط کئے جا رہا ہوں میں

مانی جائسی

;

ہر غم کو یوں تو ضبط کئے جا رہا ہوں میں
اس غم کو کیا کروں کہ جئے جا رہا ہوں میں

لو ساتھ دے چکی شب ہجراں کا زندگی
اب شام غم کو ساتھ لئے جا رہا ہوں میں

ہاں آنکھ تر نہیں مگر آنسو کہاں سے آئیں
ہم راز خون دل تو پئے جا رہا ہوں میں

کیسا سکوں کہ دل بھی تو ہے دفن میرے ساتھ
یہ ساز اضطراب لئے جا رہا ہوں میں

بھر بھر کے دے رہا ہے فلک تلخ جام غم
کیا ذوق ہے بلا کا پئے جا رہا ہوں میں

ہاں پائے صبر تھک گئے لیکن ادھر تو دیکھ
اب سجدہ ہائے شکر کئے جا رہا ہوں میں

مانیؔ یہ سوزن نفس و رشتۂ وفا
لب‌ ہائے شکوہ سنج سیے جا رہا ہوں میں