ہر ایک شخص پریشان و در بدر سا لگے
یہ شہر مجھ کو تو یارو کوئی بھنور سا لگے
اب اس کے طرز تجاہل کو کیا کہے کوئی
وہ بے خبر تو نہیں پھر بھی بے خبر سا لگے
ہر ایک غم کو خوشی کی طرح برتنا ہے
یہ دور وہ ہے کہ جینا بھی اک ہنر سا لگے
نشاط صحبت رنداں بہت غنیمت ہے
کہ لمحہ لمحہ پر آشوب و پر خطر سا لگے
کسے خبر ہے کہ دنیا کا حشر کیا ہوگا
کبھی کبھی تو مجھے آدمی سے ڈر سا لگے
وہ تند وقت کی رو ہے کہ پاؤں ٹک نہ سکیں
ہر آدمی کوئی اکھڑا ہوا شجر سا لگے
جہان نو کے مکمل سنگار کی خاطر
صدی صدی کا زمانہ بھی مختصر سا لگے
غزل
ہر ایک شخص پریشان و در بدر سا لگے
جاں نثاراختر