ہر ایک شخص مرا شہر میں شناسا تھا
مگر جو غور سے دیکھا تو میں اکیلا تھا
وہ خواب عیش طرب کا جو ہم نے دیکھا تھا
حقیقتوں سے پرے تھا حسین دھوکا تھا
خدا ہمیں بھی دکھا دے وہ دور کیسا تھا
خلوص و مہر کا ہر شخص جس میں دریا تھا
ستم بھی مجھ پہ وہ کرتا رہا کرم کی طرح
وہ مہرباں تو نہ تھا مہربان جیسا تھا
گزشتہ رات بھی ہم نے یوں ہی گزاری تھی
زمین کو فرش کیا آسمان اوڑھا تھا
اسی کو مطلبی تاباںؔ کہا زمانے نے
دعا سلام جو چھوٹے بڑے سے رکھتا تھا
غزل
ہر ایک شخص مرا شہر میں شناسا تھا
انور تاباں