ہر ایک شخص کے وجدان سے خطاب کرے
نئے لباس کی خواہش نیا بدن ڈھونڈے
سمندروں میں اترتے چلے گئے لیکن
کثافتوں کے جراثیم ساتھ ساتھ رہے
نہ جانے کون غم کائنات سے چھپ کر
مرے وجود میں بیٹھا ہے کنڈلی مارے
شعوری طور پر عرفان ذات کی خاطر
کبھی جو سر کو اٹھایا تو ٹوٹ پھوٹ گئے
تعلقات کی زنجیریں ٹوٹتی ہی نہیں
ہمیں پکار رہے ہیں خلا کے باشندے

غزل
ہر ایک شخص کے وجدان سے خطاب کرے
انتخاب سید