ہر ایک شے کی حقیقت سے با خبر دیکھوں
میں اپنی خاک میں پنہاں تجھے بھی گر دیکھوں
یہ کیا کہ ہات بڑھاؤں تو سنگ ریزے ملیں
کہیں تو میں بھی دمکتے ہوئے گہر دیکھوں
ہو آنکھ میں کسی چہرے کا ڈوبتا منظر
میں پانیوں میں مقید کسی کا گھر دیکھوں
تمام عمر اسی سائے کی تلاش کروں
کہ جس کو دیکھنا چاہوں تو در بہ در دیکھوں
نظر کے سامنے جب ہو نہ کوئی تیرے سوا
میں تیری سمت نہ دیکھوں تو پھر کدھر دیکھوں
ہے آرزو یہی آصفؔ کہ راہ ظلمت میں
اسے بھی اپنی طرح میں کبھی نڈر دیکھوں
غزل
ہر ایک شے کی حقیقت سے با خبر دیکھوں
اعجاز آصف