ہر ایک سوال کا دیتے ہیں کیوں جواب غلط
پڑھا ہے بچوں نے شاید سبھی نصاب غلط
ہمارے عہد وفا کا کہیں بھی ذکر نہیں
مورخوں نے لکھے اب کے سارے باب غلط
طنابیں ٹوٹ کے بکھریں تمام خیموں کی
ہوا کے رخ کا لگایا گیا حساب غلط
خیال شوق کی بے چہرگی پہ کیا روئیں
دلوں میں ہم نے بسائے تھے سارے خواب غلط
عبادتوں کے مراتب بلند ہوں کیسے
ترے عمل میں گنا کا ہے ارتکاب غلط
ہم احتساب عمل سے گریز پا ہی رہے
نہ وہ غلط ہے نہ اس کا کوئی عتاب غلط
دل و دماغ کی بستی اجڑ بھی سکتی ہے
پڑھے جو آنکھ ہماری کوئی کتاب غلط
مسافتوں کے کڑے کوس سہل کیا ہوں گے
اگر سفر میں ملے کوئی ہم رکاب غلط
غزل
ہر ایک سوال کا دیتے ہیں کیوں جواب غلط
نور منیری